اصل مسئلہ آج کل یہ کہ جو لڑکا لڑکی سادگی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، شعور رکھتے ہیں۔ اور رسم و روایات سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو بھی کوئی سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا۔ اول تو انسان کی ماں ہی کہنا شروع ہو جاتی کہ ہاۓ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ اس کی شادی پر سارے ارمان پورے کروں گی۔
لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ اتنی سادگی سے شادی کر دی۔ برادری والے کیا کہیں گے؟
لگتا ہے دور جہالت پھر سے آ گیا ہے۔ جہاں جاہلانہ رسموں کا دور دورہ ہے۔
برادری کی پروا ہے۔ فرسودہ رسومات کی پروا ہے۔
آج کل مسلمانوں میں جو غیر شرعی رسوم ورواج چل پڑے ہیں ان کا سلسلہ کافی طویل ہے اور وہ صرف شادی بیاہ پر ختم نہیں ہو جاتے بلکہ وہ مختلف ناموں سے چلتے رہتے ہیں اور ان میں داماد کی طرف سے سسرال والوں کی لوٹ گھسوٹ کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے ۔ چنانچہ نکاح کے بعد پانچ ہفتوں تک جمعگی والی رسمیں ادا کی جاتی ہیں خاص کر چوتھی جمعہ کی رسم لڑکی والوں کے یہاں منائی جاتی ہے اور اس رسم میں نوشاہ کو کوئی چیز بطور سلامی پیش کی جاتی ہے پھر پہلی عید کے موقع پر بھی داماد کو سلامی دینا ضروری سمجھا جاتا ہے -
عورتیں اس بات کی زیادہ حریص ہوتی ہیں کہ بہو اتنا سامان لاۓ جومحلے اور برادری میں کسی اور کے گھر نہ ہو۔ ان کا مال و اسباب بڑھے اور برادری میں شان بڑھے ۔ او رکئی لڑکوں کے والدین ایسے ہوتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ بہو اتنا کچھ لاۓ کہ بیٹا بہو الگ سے اچھی زندگی گزار لیں اور والدین کے مال کو دھکا نہ لگے۔ یہ بھی اپنا مال بڑھانے ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ کئی والدین یہ کہتے ہیں کہ وہ تو لین دین کے خلاف ہیں لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی دوسروں کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں دوسرے الفاظ میں ”وہ گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں لیکن جو بوٹی خود سے پلیٹ میں آرہی ہے اُسے آنے دیتے ہیں “۔
حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس ہندو دھرم کی اس رسمِ بد کے ہم عادی ہو چکے ہیں وہی قوم آج جہیز اور تلک کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ اور ہم دوبارہ زمانہ جاہلیت کی جانب لوٹ چلے ہیں۔