Welcome To My Blogs


This forms a compilation of all my written work done so far!!!!!!
The work involves celebrity interviews that I have conducted so far, my journalism work and literary work, my fiction work...and my TV plus radio shows...
I did radio, I did TV, and I always to find the real me..
As a writer, I could write more openly and that explored the real me..
Stay Blessed..
Cheers...
Sadaf

Wednesday, June 4, 2014

فر فر انگریزی اور تانگہ


کچھ عرصہ قبل یہماری ایک آنٹی کو خیال آیا کہ ایک ماں باپ کا بوجھ میرے صورت میں ابھی موجود ہے۔ (حالانکہ) اتنا بھی بوجھ نہیں ۔ کافی عرصہ سے دبلے پتلے ہی ہیں۔ لیکن وہ بضد تھں کہ ایک بہت اچھا خاندان ہے۔ سو اس سے مل لیا جاۓ۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ ان کے کیا لگتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب وہ لاہور ہوتی تھیں، تب ان کی پروسن کی دوست کی رشتہ دار کے کزن کا بیٹا تھا۔ یہ تو بہت دور کی بات ہوئی نا۔۔ اب اتنی دوری بھی اچھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے لڑکے کی والدہ کو ہمارا نمبر پکڑا دیا اور ساتھ میں احسان بھی جتلا دیا۔ کہ بہت اچھا بر ڈھونڈا ہے۔ ہماری اماں بے چاری خوش ہو گئیں۔ جب بات چیت فون پر شروع ہوئی تو اماں نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کیسے لوگ ہیں۔۔اس کی والدہ رات کو 12 بجے فون کرتی تھیں۔ اب یہ بات بھی ہمیں عجیب لگی کہ کوئی جگری دوستی تو ہے نہیں جو رات گئے فون کیا جا رہا تھا۔ کسی ان جانے بندے سے اگر فون پر بات کرنی بھی ہو تو 10 بجے سے شام 5 سے 6 بجے کے بیچ میں کرنا مہذب سمجھا جاتا ہے۔ خیر، معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا 2 لاکھ مہینہ کماتا تھا۔ تعلیم صرف ایف اے تھی۔ اب یہ بات بھی عجیب سی لگی۔ کہ اگر بیٹا 2 لاکھ کماتا ہے تو گھر والے تانگے میں بازار کیوں جاتے ہیں؟ جب مزید سوالات پوچھے گیے تو اس کی والدہ نے بتایا کہ لڑکے کی ڈیمانٖڈ ہے کہ لڑکی فر فر انگریزی بولتی ہو۔ فر فر انگریزی لکھتی ہو۔ کیونکہ جب ان کے ہاں فیکٹری میں سالانہ ڈنر ہوتا ہے اس میں وہ لوگوں کو دکھا سکے کہ کم تعلیم والے کو بھی فر فر انگریزی بوہلنے والی ملی ہے۔ اب یہ سن کر اماں ہماری ہکا بکا رہ گیئں۔۔یہ بھی بڑی عجیب سی ڈیمانڈ تھی۔ ہر چند کہ اس بنیاد پر لڑکی کرنا کہ "لوگوں کو فیکٹری میں دکھا سکے" والی بات کچھ عجیب سی لگی۔ تانگے میں بازار جانا ہمیں ذرا ایڈونچر لگا۔ اب خدا جانے یہ کون سا طبقہ تھا جو سودا سلف خریدنے بھی تانگے میں بازار جاتا تھا۔۔ایک اور دل چسپ انکشاف اور بھی ہوا۔ کہ موصوف نہ ٹی وی دیکھنا پسند کرتے تھے، نہ ریڈیو سننا پسند کرتے تھے نہ ان کے گھر میں کوئی اخبار، رسالہ، یا میگزین آتا تھا۔۔ان کے گھر میں یہ سب پسند ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ اب یہ بات اماں کو بہت عجیب لگی کہ دنیا سے قطع تعلق کر کے بیٹھ جانے والے لوگ عجیب ھی ہونگے۔ آج کل تو ڈھابوں اور سستے ہوٹلوں تک میں ٹی وی ریڈیو لگا ہوتا ہے۔ ہو نا ہو، کرکٹ کا سکور اور کمنٹری تو لوگ دیکھ ھی لیتے ہیں۔ مزید ایک انکشاف یہ ہوا کہ ہماری یہ آنٹی ہماری پھوپھی کی سگی جیٹھانی تھیں۔ ان کی ہماری پھوپھی سے شدید دشمنی تھی۔ انہوں نے سوچا ان کی بتھیجی(یعنی میں) کو غلط جگہ پھنسا دیتی ہوں۔ بدلہ پورا ہو جاۓ گا۔۔کچھ کچھ فون پر ہی انکی سیاست کی سمجھ آنے لگی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ دوبارہ جب ان کا فون آیا۔ تو اماں نے wrong number اور یہ کہ کر جان چھڑائی کہ وہ لوگ (یعنی ہم) اب دوسرے گھر شفٹ ہو گیے ہیں۔۔۔ایسے مواقع پر کال بلاک اور sms block service کے لیے تالیاں بجانے کو جی چاہتا ہے۔
نوٹ: یہ بلاگ بھی طنز پر مبنی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.