واہموں کے بھنور سے نکل کر میں نے سوچا۔۔
ہادوں کی اک دھنک صندلی خواب چرا لے گئی۔۔
مر نہ جاؤں کہیں تنہائی کا زہر پیتے پیتے میں۔۔۔
وسوسوں کی رت زندگی کے سہانے باب چرا لے گئی۔۔
Sadaf Fayyaz
مجھ سے باتیں تمھاری کرنے لگی ہے چاندنی۔۔۔
دھیمے سروں میں چھیڑا ہے رات نے راگ پھر سے۔۔۔
اسکے فرض کی تکمیل ہے میرے دکھوں کی مسیحائی۔
جل اٹھی ہے اپنوں کی لگائی ٹھنڈی آگ پھر سے۔۔۔
Sadaf fayyaz
میرے فن کے سچے موتی۔۔۔
فقط بازار میں بکاؤ نہیں ہیں۔۔۔
کچھ قدر دان سوداگر ایسے بھی ہیں۔۔
جو فن کا سودا کرتے نہیں تھکتے۔۔۔
Sadaf fayyaz
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.