ہونہی شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے۔۔۔
کسی سے بچھڑ کر لوگ مرا نہیں کرتے۔۔۔۔
ہادوں کی تتلیاں خوابوں کے شہر میں۔۔۔
چاہنے والے بس یوں جیا نہیں کرتے۔۔۔
کسی سے بچھڑ کر لوگ مرا نہیں کرتے۔۔۔۔
ہادوں کی تتلیاں خوابوں کے شہر میں۔۔۔
چاہنے والے بس یوں جیا نہیں کرتے۔۔۔
کبھی کبھار جس چیز کو ہم اپنی محرومی سمجتے ہیں۔ وہ اصل میں نعمت ثابت ہوتی ہے۔۔۔اور جس چیز کو ہم نعمت سمجھتے ہیں وہ آزمائش ثابت ہوتی ہے۔۔۔
جسم کے تقاضوں کی طرح انسانوں کی روح کے بھی تقاضے ہوتے ہیں ۔ روح کے تقاضے بھی انسانی شعور کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان تقاضوں کی تکمیل ہونی چاہئے۔ روحانی تقاضے اور اس کی تکمیل جسمانی تقاضوں کے مقابلے میں زیادہ مسلسل اور عظیم الشان ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل کے نتیجے میں انسان کو بہت زیادہ سکون ، بہت زیادہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہر فکر کو بھول جاتا ہے۔ ایک سرشاری اور ایک کیف اس کے ذہن کا احاطہ کرلیتا ہے۔ چاروں طرف سے خوشی اور خوشی کے لوازمات اُسے حصار میں لے لیتے ہیں اور کسی غم یا کسی پریشانی کو اس کے پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔
ایک بد صورت انسان کو بھی بد صورت مت کہو۔۔ہو سکتا ہے اسکے خواب تمہارے خوابوں سے زیادہ حسیں ہوں۔۔۔
سلسل محرومیاں، حق تلفی، اگرآدمی میں استقامت اور خدا پر کامل یقین اور شائستہ صبر نہ ہو تو آدمی کو انتہا درجہ مایوسی کے عمیق گڑھے میں دھکیل دیتی ہے …… ایسے مرحلے پر پہلے آدمی میں ذرہ ذرہ قنوطیت سر ابھارنے لگتی ہے
اہلیت اور وصف سے عاری آدمی ڈرپوک اورکمزور ہوتا ہے، کیونکہ وہ اپنے استحقاق سے زیادہ حاصل کر رہا ہوتا ہے۔
انسانی رشتوں میں تفریق گناہ ہے۔ انسان رشتوں سے نہیں انسانیت کے تقدس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔.
آجکل مایوسیوں ، ناکامیوں اور ذہنی افلاس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ زمین کے باسیوں کا اپنی ذات سے فرار اور منفی طرزِ عمل دیکھ کر نیلے پربت پر جھلمل کرتے ستاروں کی شمع اُمید کی لَو مدھم پڑگئی ہے وہ انسان جو اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بدتر زندگی گزار رہا ہے جو سکون ایک بکری اور بلی کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی انسان کو میسر نہیں۔
Sadaf Fayyaz
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.