"عمر سینتیس
سال ہو چکی ہے"
"ابھی تک بے
چاری کا بخت نہیں کھلا"
"پتہ نہیں
بے چاری کی تقدیر کب کھلے گی؟"
"ہاۓ اتنی
خو بصورت ہے، پھر بھی کوئی نہیں ملا"
"کیا آپ کو تنہائی محسوس نہیں ہوتی؟"
"کیا آپ کو
کوئی چاہنے والا نہیں ملا؟"
"لگتا ہے آپ
کے ماں باپ کو آپ کی فکر ہی نہیں"
"بیٹی کے
بوجھ سے جلد از جلد سبکدوش ہونا چاہیئے"
اب یہ چند وہ
الفاظ ہیں جو کنواری لڑکیوں کا جینا دو بھر کر دییتے ہیں۔۔نہ ہمارے لوگ کسی کے
حالات جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس ایک ہی رٹ لگائی
ہوتی کہ شادی کیوں نہیں ہوئی۔
ہمارے معاشرے میں
بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، طلاق یافتہ، خلع ہافتہ اور سنگل
ماؤں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ کچھ لوگوں کے مطابق لڑکی کا
سگھڑ، امیر، خاندانی ، شریف، خوبصورت اور تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے ورنہ
اچھا رشتہ نہیں ملتا۔
اب یہاں ایک بات
سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میرے جاننے والوں میں کچھ بے حد غریب لڑکیاں بھی ہیں جن کی شادیاں وقت پر ہو گیئں۔۔
کچھ بہت حسین اور
امیر لڑکیاں بھی ہیں جو اب تک کنواری ہیں۔
ایک اور المیہ ہمارے معاشرے کا یہ ہے کہ ذرا لڑکی کی عمر تیس سے زیادہ ہوئی، وہاں لوگ بڑی عمر کے شادی شدہ
مردوں کے رشتے بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ بغیر یہ دیکھے کہ عمر بے شک زیادہ ہے، مگر
ہے تو لڑکی کنواری ہی۔ ایک شادی شدہ عمر رسیدہ آدمی کے ساتھ رشتہ طے کر دینا کہاں
کی عقلمندی ہے۔
کچھ ماں باب، جن کی کنوارہ بر ملنے کی امید بالکل ختم ہو چکی
ہوتی ہے، ایسے رشتوں پر ہاں کر دیتے ہیں۔
میری ایک بڑی عمر
کی سہیلی کی شادی ایک طلاق یافتہ مرد سے طے کر دی گئی۔ لڑکی نے صبر کر لیا۔ کچھ
عرصے بعد اس کی پہلی بیوی حلالہ کر کے واپس آنے کی خواہشمند ہو گئی۔ چونکہ ان صاحب
کی بھی محبت اپنی پہلی بیوی سے تھی، دوسری کو چھوڑنا پڑا۔ اب میری دوست واپس اپنے
والدین کے گھر آ گئی ہے۔ اور شادی کے نام سے توبہ کر لی ہے۔ ایک تو شادی ہوئی بڑی
عمر میں اور وہ بھی ناکام ہو گئی۔ وہ بزرگ جو اس وقت نصیب کھولنے پر بضد تھے، وہ
سب غائب ہو گئے۔
ایک شادی شدہ اور
ذہنی مریض، جس کی دو بیویاں اس سے خلع لے کر چلی گئی تھیں، کے ساتھ میرا نصیب
کھولنے کی کوشش بھی کی گئی۔ میں نے سوچا، یہ بے چارہ تو اپنا نصیب نہیں کھول سکتا،
میرا کیا کھولے گا؟ انکار کر دیا۔
ایک بات غور طلب
ہے کہ ہر لڑکی شادی نہیں کر سکتی۔ کچھ لڑکیوں کے گھریلو حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ
شادی کر ہی نہیں سکتیں۔ مثال کے طور پر میری ایک سہیلی تھی جس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کی والدہ بھی علیل تھیں
اور وہ لڑکی اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کما رہی تھی۔ اچھی خاصی خوش
شکل اور پڑھی لکھی تھی۔ لیکن وہ شادی نہیں
کر سکتی تھی۔
اسی طرح میری جان پہچان میں دو اور ایسی لڑکیاں ہیں جو
شادی نہیں کر سکتیں۔ دونوں بچپن سے جگر کی مریضائیں ہیں۔ ان کی میڈیکل رپورٹس شادی کے خلاف ہیں۔اسی طرح دو بہنیں ہیں جن کا باپ
پچھلے دس سال سے کومے کی حالت میں ہے اور ماں کی بینائی ختم ہو چکی ہے۔
دونوں بہنیں گھر کے کام کرنے کے ساتھ ساتھ علیل والدین کی مکمل دیکھ بھال بھی کرتی
ہیں اور نرس کی ڈیوٹی بھی کر رہی ہیں۔ شادی کا پوچھو تو صاف انکار کر دیتی ہیں کہ
بیمار ماں باپ کو کون دیکھے گا؟
کبھی کبھی اچھی
شکل ، شرافت اور تعلیم کے باوجود ایسے
حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انسان شادی نہیں کر سکتا۔ میری ایک دوست ہے جس کو بچے نہ ہونے پر شوہر نے
شادی کے پانچ سال بعد طلاق دے دی۔ وہ لڑکی
اب اپنی بیوہ ماں کے ساتھ ریتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ بچے وہ پیدا کر
نہیں سکتی، شادی کر کے اس نے کیا کرنا ہے۔
اگر مرد بہت بھی اچھا ہو، تو بھی اس کی ماں یا بہن بچہ نہ ہونے کے طعنے ضرور دیتے
ہیں۔یہ سب وہ بھگت چکی ہے اور مزید نہیں دیکھنا چاہتی۔
لڑکی کا کنوارہ
رہنا معاشرتی مجبوری کے تحت نہیں ہوتا، کبھی
کبھی اس کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔
جب میں نے میڈیا میں قدم رکھا
تو بہت سی ایسی مثالیں دیکھیں جہاں لڑکیاں اپنے گھر والوں کی کفالت کر رہی
تھیں۔ مجھ سے بھی ہر انٹرویو میں یہی سوال
بار بار پوچھا گیا۔ جس کا ایک ہی جواب تھا
کہ بڑی عمرکے شادی شدہ مردوں کے رشتے تھے،
اس لیے میرے والدین نہیں مانے۔
ہر ماں باپ کے
اپنی بیٹی کے لیے کچھ خواب ہوتے ہیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو کمانے والا، کنوارہ اور شریف لڑکا ملے۔ کون سے ایسے ماں باپ ہیں جو چاہیں گے کہ
کنواری بیٹی کی شادی کسی بڑی عمر کے بچوں
والے مرد سے کر دی جاۓ اور وہ گھٹن زدہ زندگی گزارے۔
ایک اچھی بات جو
دیکھنے میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ اب غریب طبقے میں بھی خاصہ شعور بیدار ہونے لگا
ہے۔ ایک دن میری گھر کام کرنے والی عورت
کہنے لگی، "باجی میری بیٹی کے رشتے سب بڑی عمر کے شادی شدہ مردوں کے ہیں۔ میں
نے سوچ لیا ہے کہ کوئی لڑکا ہی دیکھوں گی۔ بڑی عمر والوں کو لڑکی نہیں دوں گی۔ اس
کو پڑھا لکھا کر اس قابل کروں گی کہ کل کو اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔ ایک رشتہ
ستر سال کے آدمی کا آیا ہے جو اب تیسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ میں نے انکار کر دیا
ہے"
یہ سب جان کر
مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بس۔ عام طورر پر اس طبقے میں بیٹی بوجھ سمجھی جاتی ہے۔
لیکن ایک ملازمہ کے خیالات جان کر مجھے بہت اچھا لگا۔
آخر میں میں یہی
کہنا چاہوں گی اپنے آپ کو اتنا مضبوط کریں کہ کل کو حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ ہر
لڑکی کے لیے شادی ممکن نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں لوگ صرف مشورے دینے کے شوقین ہوتے
ہیں۔ وہی گھسی پٹی پرانی باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ شادی لڑکی
کا نصیب کھول ہی دے گی۔ میری چند بڑی عمر کی سہیلیوں نے شادی شدہ مردوں سے شادیاں
کی تھیں، جو ایک یا دو سال میں ہی بری طرح ناکام ہو گیئں۔ بھلا کیا نصیب کھلا ان
کا؟ الٹا ماں باپ کے گھر واپس آ گیئں۔
میرا کہنا یہی ہے کہ اگر رشتے مناسب نہ ہوں، یا بالکل ہی بے جوڑ ہوں، تو نہیں
کرنا چاہییے۔ اپنے آپ میں اتنی قوت پیدا
کرنی چاہیئے کہ انسان حالات کا سامنا کر سکے۔